پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کودرپیش چیلنجز سے کیسے نمٹا جائے؟

This page in:
Girl in a classroom اسلام آباد پاکستان میں لڑکیوں کا اسکول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فوٹوگرافی: انسیہ سید © ورلڈ بینک

لڑکیوں کی تعلیم اسمارٹ اکنامکس ہے اور پاکستان نےلڑکیوں اورلڑکوں کومعیاری تعلیم تک رسائی دینے کے حق کی ضمانت کا عہد کیا ہے ( ایس ڈی جی 4

پاکستان نے گزشتہ 14 سالوں میں لڑکیوں اورلڑکوں کواسکول میں داخل کرنےکےعمل کوحیرت انگیز طورپربڑھادیا ہے۔ یعنی بچوں اور بچیوں دونوں کے داخلے کی شرح میں تقریبا 10 فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہوا ہے (تصویر نمبر1) ۔ اسکول جانے کی عمرکےتقریبا پانچ کروڑ بچوں کی اس آبادی میں اسکول میں داخلے کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ تاہم تمام بچوں کےلئےمعیاری تعلیم کویقینی بنانےمیں ملک کومتعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ پاکستان میں 10 سال کی عمرکے 75 فیصد بچے ایسے ہیں جوایک سادہ متن نہیں پڑھ سکتے اوریہ شرح کووڈ 19 اور 2022 کی سیلابوں کی وجہ سے اندازاً 79 فیصد تک پہنچ گئی ہوگی۔

تعلیمی پیشرفت کےباوجود پاکستان میں لڑکیوں کومعیاری تعلیم تک رسائی میں زیادہ مسائل کا سامنا ہےاورتعلیمی نتائج کے لحاظ سےلڑکیاں لڑکوں سے پیچھےہیں۔مزید لڑکیوں اورلڑکوں کواسکول میں داخل کرانے کےمخصوص چیلنجز سےنمٹنے کےلئےکئے جانےوالےاقدامات میں ڈیٹا کے استعمال کی ضرورت ہے۔ موجودہ رفتار سے (جس میں پیشرفت کےحوالے سے مضبوط مفروضے شامل ہیں) پاکستان میں تمام لڑکیوں کواسکول میں داخل کرنےکےلئےکم ازکم50 سال اور اورلڑکوں کےلئےکم ازکم31 سال لگیں گے۔ لڑکیوں کےلئےتعلیم تک رسائی کودرپیش چیلنجزکے ممکنہ حل ہم یہاں پیش کرتے ہیں.

تصویر نمبر 1. جنس کے لحاظ سے داخلے کی شرح ( ٪ )

Figure 1. Net enrollment rates by sex (%)
ڈیٹا سورس: PSLM 2004-5, PSLM 2018-19کے ڈیٹا  پر مشتمل مصنفوں کا حساب

چیلنج نمبر 1: ایک کروڑ بیس لاکھ لڑکیاں اسکول سے باہرہیں

پاکستان میں لڑکوں کے مقابلے میں تقریبا 20 لاکھ زیادہ لڑکیاں اسکول نہیں جاتیں یا مجموعی طورپرتقریبا ایک کروڑ بیس لاکھ لڑکیاں اسکول سے باہرہیں اورپاکستان میں اسکول نہ جانے والی آبادی کا زیادہ ترحصہ لڑکیوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں اور بچیوں کی کل تعداد تقریباً 20.3 سے 22.1 ملین ہے۔

حل : اس چیلنج کے حل کے لئے ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے اسکول نہ جانے والے بچوں کی مخصوص قسم کے لئے مخصوص پروگرامز تشکیل دیئے جا سکتے ہیں۔ مثال کےطورپرپرائمری اسکول سےماضی قریب میں ڈراپ آوٹ ہونے یا نکلےجانےوالےچھوٹےبچوں کوواپس اسکول لانا ان چھوٹے بچوں کے لئے ایک ٹارگٹڈ یعنی مخصوص پروگرام ہوگالیکن جن بچوں نے برسوں پہلے اسکول چھوڑ دیا ہوان کے لئےخواندگی،نیومریسی یعنی اعداد وشماراورہنرسکھانا مخصوص پروگرام میں شامل ہوں گے۔

ایک اورحل اسکولوں کی تعدادمیں اضافہ کرنا ہے: صوبہ پنجاب نے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے ذریعے پرائمری تعلیم کو فروغ دینے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کےاس نظام کوپرائمری کےعلاوہ تعلیم کے دیگرسطحوں تک بڑھانےاورقواعدوضوابط کو فعال بنانےسے بڑے فائدے مل سکتے ہیں۔ اسی طرح دیہی علاقوں میں سرکاری اسکولوں کی توسیع اور بہترانتظام بھی ایک اورحل ہےجیسا کہ صوبہ سندھ میں SELECT پروجیکٹ نے متعارف کیا ہے۔

چیلنج نمبر 2: زیادہ امکان ہے کہ بہت ساری لڑکیاں سکول کبھی نہیں جائیں گی

2018 میں 26 فیصد لڑکیاں اور19 فیصد لڑکے ایسے تھے جوکبھی اسکول نہیں گئے یعنی ان میں7 فیصد پوائنٹس کا فرق تھا(تصویر نمبر2). پاکستان نے 2004 کے مقابلے میں اسکول انرولمنٹ میں کافی بہتری دکھائی ہے کیونکہ اس وقت یہ فرق 13 فیصد پوائنٹس تھا۔ تاہم اس کوشش کے باوجود لڑکیاں اب اس سطح پرپہنچی ہیں جہاں 2004 میں لڑکے تھے۔ تصویرنمبر2 سے پتہ چلتا ہے کہ 2018 میں کبھی اسکول نہ جانے والی لڑکیوں کی تعداد 2004 (14 سال پہلے) میں کبھی اسکول نہ جانے والےلڑکوں کی تعداد کے برابرتھی۔

حل : لڑکیوں کو اسکول بھیجنے پرپریمئیم دینےکےساتھ بچوں کواسکول بھیجنےپروالدین کی حوصلہ افزائی کےلئےکنڈشنل کیش ٹرانسفریعنی نقدرقم کی مشروط منتقلی کوبڑھانا بچیوں کو بروقت اسکول میں داخل کرنےاور صنفی فرق کو کم کرنے کےلئے مؤثرثابت ہوسکتا ہے۔ اس حوالے سےفرسٹ گریڈ اور کچی کلاسوں کی انرولمنٹ پرتوجہ مرکوزکرنے والے داخلے کی مہمات بھی مؤثر ثابت ہوسکتی ہیں۔

تصویرنمبر 2 . کبھی اسکول نہ جانے والے بچوں اور بچیوں کی تعداد کی شرح بلحاظ جنس ( ٪ )

 

Figure 2. Children who have never attended school by sex (%)
ڈیٹا سورس: PSLM 2004-5, PSLM 2018-19کے ڈیٹا  پر مشتمل مصنفوں کا حساب

چیلنج نمبر 3: غریب گھرانوں میں لڑکیوں کے اسکول جانے کے امکانات کم ہیں

غربت لڑکیوں کی تعلیم کی راہ میں ایک بڑی روکاوٹ ہے۔ غریب گھرانوں میں لڑکیوں کے لڑکوں کے مقابلے میں اسکول جانے کے امکانات 22 فیصد کم ہیں (تصویر3)۔ امیرگھرانوں میں یہ صنفی فرق کم دکھائی دیتا ہے اوردولت کے لحاظ سے امیرترین گھرانوں میں یہ فرق ختم ہو جاتا ہے۔ امیر ترین گھرانوں کے اس گروپ میں اسکول میں داخلے کی شرح لڑکوں اورلڑکیوں دونوں کے لئےتقریباً 87 فیصد ہے۔

تصویر نمبر 3. جنس اور گھریلو دولت کے لحاظ سے اسکول میں داخلہ ( ٪ )

Figure 3. School enrollment by sex and household wealth (%)
ڈیٹا سورس:  PSLM 2018-19کے ڈیٹا  پر مشتمل مصنفوں کا حساب

مزید برآں غریب گھرانوں میں لڑکیوں کےاسکول جانےکاامکان امیرگھرانوں کی لڑکیوں کے مقابلے میں 52 فیصد کم ہے (تصویر3)۔ دیہی علاقوں کی وہ لڑکیاں جوغریب خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں ، ان کے اسکول میں داخل ہونےکاامکان دیگرکسی بھی گروپ کےمقابلےمیں کم ہوتا ہے۔ اسی طرح دیہی علاقوں کےلڑکےاورلڑکیاں دونوں اورشہری علاقوں کی لڑکیوں کا اسکول میں داخل ہونےکاامکان کم ہوتا ہے(تصویر 4)۔ دیہی علاقوں میں لڑکیاں سب سے زیادہ پسماندہ گروہ میں شامل ہیں۔

حل . پاکستان نے حال ہی میں ملک کے تمام اضلاع میں کنڈشنل کیش ٹرانسفریعنی نقدرقم کی مشروط منتقلی کے پروگرام کو پھیلایا ہے اور لڑکیوں کے وظیفے کے پروگراموں کے مثبت نتائج آتے رہے ہیں۔ دیہی اورصنفی لحاظ سے گھرانوں تک مالی امداد کو پھیلانےاورمستحکم کرنےسے تفریق کےاس خلاء کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے مگرشرائط پرمبنی یہ مالی امداد اس وقت کام کرے گی جب مناسب مقدارمیں سکول موجود ہونگے جوپاکستان کے بہت سےدیہی علاقوں میں نہیں ہیں۔ مثال کے طورپرپاکستان کے دیہی علاقوں میں تقریبا130,000 پرائمری اسکول ہیں لیکن صرف 33,000 مڈل اسکول موجودہیں جس کی وجہ سےدیہی علاقوں میں مڈل اسکول کی عمرکے بہت سے طالب علم پرائمری اسکول کے بعد تعلیم کے مواقع سے محروم ہوتےہیں۔

تصویر نمبر 4 . تمام صوبوں کے دیہی علاقوں میں ہرعمرکی لڑکیوں کےاسکول جانے کےامکانات لڑکوں کے مقابلے میں کم ہیں۔

Figure 4. In all provinces, girls of all ages in rural areas are less likely to be in school than boys
ڈیٹا سورس:  PSLM 2018-19کے ڈیٹا  پر مشتمل مصنفوں کا حساب

چیلنج نمبر 4 : اسکول میں لڑکیوں اور خواتین کی حفاظت

لڑکیوں کو اسکول کے اندر اور اسکول جاتے ہوئے ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں عوامی مقامات پر، نقل و حرکت کے دوران اور اسکولوں کے قریب اس مسئلےکا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سینٹر فار جینڈر اینڈ پالیسی اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق لڑکیاں ان جگہہوں پر ہراسانی کا سامنا کرتی ہیں ۔ اس کے پیش نظر پاکستان میں والدین یا تو لڑکیوں کی تعلیم میں تاخیر کرتے ہیں یا انہیں اسکول جانے سے مکمل طور پر روکتے ہیں۔ دوسری سب سے اہم وجہ جو والدین لڑکیوں کو اسکول نہ بھیجنے کی وجہ کے طور پربتاتے ہیں وہ ان کے گھروں سے اسکول تک کا زیادہ فاصلہ ہے۔ یہ ایک ایسا عنصر ہے جولڑکیوں کی حفاظت کے حوالے سے والدین کے خدشات کو بڑھاتا ہے: اسکول جتنا زیادہ دور ہوگا، لڑکیوں کے لئے اتنےہی زیادہ خطرے کا سامنا ہوگا۔

حل . جس طرح صوبہ خیبر پختونخواہ میں لڑکیوں اور خواتین اساتذہ کے لئے ٹرانسپورٹ کی خدمات فراہم کی گئی ہیں، اسی طرح دوسرے صوبوں میں بھی ٹرانسپورٹ کے نظام کو فروغ دینے کی ضرورت ہےاور ساتھ میں طلباء کے لئے اسکول کو محفوظ بنانا ضروری ہے(مثال کے طور پر ، اسکولوں میں چار دیواری کی تعمیر

آگے کیا کیا جائے؟

پاکستان نے ثابت کیا ہے کہ آبادی میں اضافہ ہوتے ہوئےبھی لڑکیوں کو اسکول میں داخل کرنے کی شرح میں اضافہ ممکن ہے۔ اس پیشرفت کو آگے بڑھانے کے لئے ایسے پروگرام تشکیل دیئے جا سکتے ہیں جو نئی تحقیق پر مبنی ہوں، جن پر خرچہ کم آئے اور جن کا دائرہ وسیع کیا جا سکے۔ مثال کے طور پرمختلف ممالک میں غیر ہدف شدہ اقدامات کے ذریعے لڑکیوں کی تعلیم کو ہدف پر مبنی اقدامات کی طرح مؤثر طریقے سے آگے بڑھا یا جا سکتا ہےجیسا کہ Yuan and Evans کی تحقیق میں بیان کیا گیا ہے۔یہ بات کچھ ڈومینز میں درست ہےلیکن لڑکیوں کو درپیش مخصوص رکاوٹوں کے لئے مخصوص پروگرام ہی بہترین کام کریں گے۔ مندرجہ بالا ممکنہ حل ان دونوں پہلووں کی عکاسی کرتے ہیں۔

تاہم درپیش چیلنجز کے حل کے لئے مناسب اور اچھی طرح سے عملدرآمد شدہ فنڈنگ کی ضرورت ہے پاکستان اپنی GDP کا صرف 2.5 فیصد حصہ تعلیم پر خرچ کرتا ہے جو بین الاقوامی اوسط تعلیمی خرچ یعنی 4 فیصد سے بہت کم ہے۔ ورلڈ بینک کے اندازے کے مطابق اس خلا کو کم کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کےلئےکہ تمام بچوں، خاص طور پر لڑکیوں کو معیاری تعلیم تک رسائی حاصل ہو، تعلیم پر GDPکا کم از کم 4.5 فیصد حصہ خرچ کرنےکی ضرورت ہوگی۔


Authors

Juan D. Barón

Senior Economist, Education Global Practice, World Bank Group

May Bend

Senior Consultant

Join the Conversation

The content of this field is kept private and will not be shown publicly
Remaining characters: 1000