کیل ( Kale)، کیفر ( Kefer) اور کوائنا ( Quinoa) جیسے پرانے کھانوں نے اب دنیا بھرمیں فیملیز کےکھانے کی میزوں پرسجے سجائے اور جانے پہچانے کھانوں، مثلاً بلیو بیری، اورینج سویٹ پوٹیٹو اور سالمن کی طرح اپنی جگہ بنالی ہے۔
صھت اور غذائی فوائد کے حامل خیال کیے جانے والے اِن'نام نہاد' سپر فوڈز' کو لوگ اکثر 'کچھ نیا' گردانتے ہیں۔ انھیں اب مشہور و معروف شیفس نے بھی بہت شہرت دی ہے اور سان فرانسسکو سے سنگاپور تک اب یہ کھانے پینے کے شوقین افراد کا جنون بن گئے ہیں۔
ہم ایک متنوع دنیا کے باسی ہیں، جہاں تقریباً معدوم شدہ کوائنا ( Quinoa) جیسے قدیم کھانے (جو گزشتہ تین ہزار سال تک اینڈین سولائیزئشن کی روزمرہ خوراک کا لازمی حصہ تھا لیکن پھر ہسپانیوں کی آمد کے ساتھ کافی حد تک معدوم ہوگئے) اب ہمارے کھانے کی میزوں پر واپس آرہے ہیں۔
سالمن، جو قدیم حجری دور ( Paleolithic Times) سے نارڈک ڈائیٹس (Nordic Diets) کی خوراک کا لازم جزرہا اور جو کہ تمام شمال مغربی کینیڈا کی اصلی مقامی آبادی کی تہذیب میں گندھا ہوا ہے ، اور اسی طرح کے دیگر سپر فوڈز کی یکساں کہانیاں ہیں۔ اسی طرح قدیم دنیاکے کچھ اور کھانے ، جو آبائی طور پر جانے جاتے ہیں، معدوم ہورہے ہیں، اگرچہ مکمل طور پر بھلائے نہیں گئے ہیں اور دوبارہ دریافت ہونے کے انتظار میں ہیں۔
غربت کے خلاف جنگ (War on Poverty) میں خوراک پہلی صف میں آرہا ہے۔صحت اور انسانی وسائل کا ایک بحران اس وقت دنیا کو تہہ و بالا کیے دے رہا ہے۔، اور مختلف النوع، آسان رسائی کے حامل، قابلِ مقدور، اور دستیاب خوراک کی کمی یا غیر موجودگی کو اس کی وجہ بتایا جارہا ہے۔
مثال کے طور پر موٹاپا، جو غلط خوراک اور ورزش میں کمی سے ہوتا ہے، 1975 کی نسبت تقریباً تین گنا بڑھ گیا ہے اور دنیا میں آج موٹے افراد کی تعداد تقریباً دو ارب سے زیادہ ہے۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں کی تمام اموات میں 45 فیصد حصہ (ہر سال 3.5 ملین) غذائی قلت یا کم غذائیت والے خوراک کا ہے۔ اِس کا کافی حد تک مداوا ہوسکتا ہے، مگر اسے تلاش کرنا مشکل ہے، کیونکہ یہ" پوشیدہ" امر رہتا ہے۔
قومی معیشتوں کے پالیسی ساز اور منتظمین اب اس حقیقت کو سمجھ کرجاگنا شروع ہوئے ہیں کہ غذائی قلت یا غذائیت میں کمی کےبہت گہرے معاشی مضمرات بھی ہوتے ہیں، جو مجموعی قومی پیداوار ( GDP) میں 3-11 فیصد کمی لاتے ہیں۔ کمی کی مقدار ملکو ں پر منحصر ہے۔
بظاہر بنگلہ دیش، بھارت، اور پاکستان جیسی معیشتیں مضبوط لگتی ہیں، کیونکہ وہاں پیٹ بھرےلوگ نظر آتے ہیں، مگر کسی نئی زندگی کے ابتدائی 1000 دنوں میں صحت مند جسمانی اور ذہنی نشونما کے لیے جن بنیادی غذائی اجزا اور وٹامنز کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اکثر ترقی پذیر ممالک میں دکھائی نہیں دیتی، اور یہ چیز تعلیمی ترقی اور معاشی خوشحالی کو آگے بڑھنے سے روکتی ہے۔
لگتا ہے کہ والدین، چاہے ان کا تعلق امیر معیشتوں سے ہو یا غریب، جانتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ کہیں نہ کہیں ٹھیک نہیں ہورہا۔ اگر صحت بخش خوراک کے مختلف متبادل ، ، جو قابلِ رسائی ہوں، قابلِ مقدور ہوں، اور باآسانی دستیاب ہوں، اچھی طرح معلوم ہوں، تو کیا والدین اپنے خاندان کے لیے مارکیٹ سے ایسی خوراک خریدنا پسند کریں گے؟
عالمی بینک کی ایک چھوٹی سی مالی امداد اوریورپی یونین/ EU اور برطانیہ کے تعاون سےجنوبی ایشیاء کا خوراک و غذائی اقدام (SAFANSI) کا آغاز کیا گیا۔ WorldFish کے ساتھ اشتراک قائم کیا گیا تاکہ اس شعبے کو آزمایا جائے۔
بنگلہ دیش کی حکومت، سائنسدانوں، معیشت دانوں، ایک پرائیویٹ سیکٹر کی ڈیجیٹل میڈیا کمپنی، اور براڈکاسٹرز کے تعاون و اشتراک سے ایک 60 سیکنڈز کا ٹی وی اشتہار (TV Spot) تیار کیا گیا اور پورے ملک میں دو مواقع پر نشر کیا گیا۔ اسے 25 ملین سے زیادہ لوگوں نے دیکھا۔ ریڈیو پر اس کے متوازی ایک پروگرام بھی تیار کرکے چلایا گیا، جو کئی ملین کوگوں خصوصاً غریب اور پسماندہ طبقات تک پہنچایا گیا۔
.
ٹی وی اور ریڈیو کے دونوں سپاٹس کو قصداً رویہ جاتی معیشت کے تناظر میں بنایا گیا۔ یہ مختصر موسیقی پر مبنی سپاٹ تھے، جس میں ایک ایک بچے اور ایک بچی نے تمام کہانی کو ایک گیت کی شکل میں گایا۔یہ گیت بچوں کی ایک قدیم شاعری پر مبنی تھا جو بنگلہ دیش اور بھارت کے بنگالی زبان بولنے والی آبادی میں کافی مشہور تھی۔
اس میوزیکل سٹوری کی توجہ کا مرکز مقامی، پختہ، اور چھوٹے سائز کی ایک مچھلی کے چار اقسام کی غذائی افادیت پر مشتمل ہے۔ سائنسدانوں اور پریکٹیشنرز کے ایک ابھرتے ہوئے طبقے نے اب اسے نیوٹری فش (NutriFish)کے نام سے ڈب کیا ہے، اور حامل عورتوں اور دودھ پلانے والی ماؤں او ربچوں کو اس کی غذائی افادیت کے بارے میں بتارہے ہیں، جب اسے پہلے کے 1000 دنوں کے دوران استعمال کیا جائے۔
یہ کام تاریخی اور ثقافتی احساسات و جذبات کو ابھار کر قدیم لیکن حالیہ سائنسی طور پر تصدیق شدہ ، اور ابھی تک کے ناقابلِ فراموش سوپر فوڈ - "نیوٹری فش 1000" کی خریداری اور استعمال پر اثرانداز ہوا۔
اس کی پہلی نشریات کے ساتھ ہی اس سوپر فوڈ کی بحیثیت ایک حل کی بڑھتی ہوئی پہچان کے گرد ایک تحریک ابھرنا شروع ہوگئی۔ SAFANSI کے تعاون سے پیش کردہ یہ ٹی وی سپاٹ، جسے اس تحریک کی معاونت حاصل رہی ہے، تین بہت نمایاں اور قابلِ پیمائش طریقوں سے ذہنوں میں تبدیلی لارہا ہے اور پالیسی اور سرمایہ کاری پر اثرانداز ہورہا ہے۔
اول، جہاں تک ذہن سازی کا تعلق ہے، اس نشریات نے کافی اثرات مرتب کیے اور سوچنے کے لیے بہت سا موادفراہم کیا ۔ ایک ہفتے کے اندر ملک کی تمام مچھلی منڈیوں میں چھوٹی مچھلی کی قیمتِ فروخت میں 10سے100 فیصد، بلکہ اس سے بھی زیادہ اضافہ ہوا۔ ہم نے مشاہدہ کیا کہ ماں اور باپ دونوں اپنے خاندانوں کے لیے ان مچھلیوں کی خریداری میں ایک جیسی دلچسپی دکھارہے تھے۔ منجمد رویوں اور خوراک کی خریداری میں فرق پڑچکا تھا۔
دوم، اس پالیسی کے حوالے سے بنگلہ دیش نے اس پختہ عزم کا اظہار کیا کہ وہ 2020 تک چھوٹی مچھلی کی پیداوارکو45،000 گھریلو پیمانے کے تالابوں تک پھیلائے گا۔ اندازہ ہے کہ اس سے 5 ملین گھرانے اور 15 ملین سے زائد خواتین اور بچے مستفید ہوں گے۔ بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان نے اب ماہی گیری سے وابستہ غذائیت کے تعلق کو اپنی بنیادی حکمتِ عملیوں میں شامل کرلیا ہے اور اسے اپنے خوراک اور غذائیت کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے بطور پالیسی اپنایا جا رہا ہے۔
سوم، سرمایہ کاری کے لحاظ سےموجودہ افق پر ایک تبدیلی نظر آرہی ہے۔ SAFANSI کے تعاون سے جاری شدہ عالمی بینک کی ایک رہنما رپورٹ " جنوبی ایشیاء میں غذائیت میں کمی کا خاتمہ (جو 2019 میں آئے گی) انسانی وسائل میں بہتری، خصوصاً خوراک اور غذائیت کے تحفظ کے لیے مچھلی اور زرعی خوراک کے حل کی نمایاں خصوصیات پیش کرے گی۔
آخر میں، ٹی وی سپاٹ اور اس کے اہم ترین پیغامات، جو EAT سٹاک ہوم فوڈ فورم میں منعقدعالمی اقتصادی فورم(WEF) کے ایونٹس میں خوراک کے تحفظ کی 45 ویں کمیٹی (CFS45) میں دیکھے گئے۔ اور جنھیں اہم ترین ایکشن نیٹ ورکس نے فروغ دیا ،تاکہ آبی غذا کے مقام کو سپورٹ کیا جائے، نے بحث و مباحثے کے دروازے کھولے ہیں اور ایک صحت مند مباحثے کو جنم دیا ہے۔
اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ مچھلی اور دوسری آبی غذائیں خوراک اور غذائیت سے متعلق پالیسی اور سرمایہ کاری کی توجہ کا مرکز بنیں، ابھی کچھ راستہ طے کرنا باقی ہے۔ ان معاملات پر ابھی تک اکثر زمینی غذاؤں کا تسلط قائم ہے، حالانکہ آبی غذاکی افادیت کے شواہد موجود ہیں۔ بہرحال، چھوٹے غذائی مچھلی کے حل، مثلاً نیوٹری فش 1000، اپنے آپ کو ثابت کررہے ہیں کہ وہ مچھلی کے مخص کاروبار سے بالاتر ہیں اور کسی بھی وقت سوپر فوڈ کی صفوں میں شامل ہوسکتے ہیں۔
Join the Conversation