پاکستان کی ایک کہانی: خواتین ریسکیو اہلکار کی زبانی

Paras and Taskeen at the newly established Emergency Operations Center in Karachi. Paras and Taskeen at the newly established Emergency Operations Center in Karachi.

پاکستان دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جہاں سب سےزیادہ صنفی فرق پایا جاتاہے،لیکن یہاں کی خواتین ایمرجنسی ریسکیو سروس میں تبدیلی لا رہی ہیں۔ 

پارس انڑ  اور تسکین زیدی،وہ اولین خواتین ہیں جنھیں عالمی  بینک کے مالی تعاون سے چلنے والے سندھ ریزیلینس پراجیکٹ کے تحت سندھ ایمرجنسی ریسکیو سروس 1122 کے لیے بھرتی کیا گیا تھا۔ مارچ 2022 میں قائم کردہ ریسکیو 1122 صوبہ سندھ میں اپنی نوعیت کی سب سے پہلی ون ونڈو جامع ایمرجنسی سروس ہے۔ شہری  ہیلپ لائن"1122"پرمفت کال کر کے ہنگامی خدمات تک رسائی حاصل کر تے ہیں جن میں طویل فاصلے پر مریضوں کی منتقلی، حادثاتی اقدام، فائر فائٹنگ، واٹر ریسکیو، اربن سرچ اینڈ ریسکیو اور لاء اینڈ آرڈر سپورٹ شامل ہے۔ 

پارس فخر کے ساتھ بتاتی ہے کہ " زیادہ تر لوگوں کا یہ خیال تھا کہ عورت امدادی کارروائیوں کے لیے کام نہیں کر سکتی۔ لیکن میں نے اپنے آپ سے کہا، "عورت ایسا کیوں نہیں کرسکتی؟ ۔ اس لیے میں نے اس ملازمت کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا ۔"  

Paras and Taskeen at the newly established Emergency Operations Center in Karachi. Photo: World Bank.
تصویر: کراچی میں نئے قائم کردہ ایمرجنسی آپریشن سینٹر میں پارس اور تسکین۔ عالمی بینک۔

ریسکیو عملے کو دی جانے والی تربیت خدمات انجام دینے اورلوگوں کی خدمت کرنے کاگہرا جذبہ پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پارس اور تسکین ان 134 افسران میں شامل تھیں جنھیں لاہور، پاکستان میں واقع ریسکیو اکیڈمی میں 4 ماہ کی تربیت کے لیے منتخب کیا گیاتھا۔ یہ تربیت جسمانی مشقیں مکمل کرنے، بچاؤ کی تکنیکوں میں مہارت حاصل کرنے اور آفات کے اقدامات کے لیے درکار نفسیاتی اور تکنیکی مہارتوں کو فروغ دینے پر مشتمل تھی ۔

پارس اور تسکین اپنی سخت تربیت کو یا د کرکے کہتی ہیں۔ "ہم طلوع آفتاب سے پہلے جاگتے اور مشکل حالات کی تربیت حاصل کرتے تھے جیسے اونچی عمارت سے چھلانگ لگانا۔ اکثر لوگوں کا یہ خیال تھا کہ چونکہ خواتین کے لیے ایسی تریبت  انتہائی مشکل ہوتی ہے ، اس لیے انھیں یہ توقع تھی کہ ہم اس تربیت کو چھوڑ دیں گے۔ خواتین ریسکیو آفیسرز کے طور پر انسانیت کی خدمت کرنا، ہمارا جذبہ تھا اور اسی جذبےنے ہمیں مشکلات پر قابو پانے کی قوت دی تھی۔"

Caption: Paras and Taskeen excelled in the four-month intensive training. Sindh Provincial Disaster Management Authority.
تصویر: پارس اور تسکین نے اس 4 ماہ کی سخت تربیت میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ سندھ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی۔

پارس روزانہ ریسکیو 1122 ہیڈکوارٹر میں تین گھنٹے کا طویل سفر طےکرکے جاتی ھیں جہاں وہ ریسکیو انوینٹری کو ترتیب دیتی اور ہنگامی حالات کے دوران سامان فراہم کرتی ہے۔ انھیں خصوصاً اس بات پر فخر ہے کہ ان کے دو بیٹوں میں بھی  عوامی خدمت کے لیے احساس ذمہ داری پیدا ہوا ہے ۔ پارس کہتی ہے کہ "میں اپنے دوسرے بچے کی پیدائش کے بعد سخت جسمانی پریشانی کے عالم سے گزر رہا تھی جب میرے بھائی نے ریسکیو 1122 سندھ میں مجھے نوکری کے لیے درخواست دینے کا کہا'' ۔

عالمی  بینک کے مالی تعاون سے چلنے والے سندھ فلڈ ایمرجنسی بحالی پراجیکٹ کےتحت اس سروس کا ایک اہم  ہدف یہ ہےکہ 2028 تک خواتین ریسکیورز اور انتظامی عملے کی تعداد کو 30 فیصد تک بڑھایا جائے۔

یہ کام کرناآسان نہیں۔ کام کرنے کی عمر والی صرف 21 فیصد خواتین ملازمت کرتی ہیں – یہ تعداد ترقی کی اسی سطح کےممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے جو اوسطاً 58 فیصد ہے۔

پاکستان میں خواتین کے کام کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں میں نقل و حرکت کی پابندیاں، تحفظ کے مسائل اور گھریلو کام اور بچوں کی دیکھ بھال سے متعلق سماجی اصول شامل ہیں۔ کام کی جگہ پر جنسی طور پر ہراساں کرنا، ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔ اگر گھر کے مرد خواتین کو گھر سے باہر کام کرنے کی اجازت دیں تو خواتین کا لیبر فورس میں شرکت کرنے کا زیادہ امکان ہوجاتا ہے۔ تحقیق سے یہ پتہ چلتا ہے کہ خواتین کے لیے محفوظ اور سستی ٹرانسپورٹ میں سرمایہ کاری، انٹرنیٹ تک رسائی، خاندانی اعتراضات کم کرنے کے اقدامات، بچوں کی نگہداشت کے لیے معاونت اور بھرتی میں صنفی تعصب  کم کرنے جیسے اُمور افرادی قوت میں خواتین کی شرکت کو قابل عمل بنانے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔

تسکین جو اَب کنٹرول روم آپریٹر کے طور پر ایمرجنسی کالز سنتی ہیں،انھیں انٹرنیٹ پر ریسکیو 1122 میں ملازمت کے موقع کے بارے میں معلوم ہوا تھا۔ لوگوں نے اس ملازمت کو خواتین کے لیے نامناسب قرار دیتے ہوئے اس کے لیے درخواست دینے کی حوصلہ شکنی کی تھی۔ ایک اور بڑامسئلہ اس کی  ٹریننگ کے لیے ملک کے دوسرے صوبے کے شہر لاہور کا سفر کرنا تھا۔ تاہم، تسکین کے خاندان خصوصاً ان کے شوہر نے لاہور میں تربیت کے دوران اپنے بڑے بیٹے کی دیکھ بھال کرنے میں مدد کی۔ تسکین کی ساتھیوں کا تعاون اور ریسکیو ڈائریکٹر کی رہنمائی سب سے اہم تھی۔

انھوں نے کہا کہ "میں یہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ نہ صرف ایک عورت یہ کام کر سکتی ہے بلکہ وہ اپنے معاشرے کے لیے بھی قابل قدر خدمات انجام دے سکتی ہے۔ آج مجھے سندھ کی ریسکیو ٹیم کا حصہ ہونے پر فخر ہے۔ میں نے یہ ثابت کیا ہے کہ خواتین ادارے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں اور اہم کام بھی انجام دے سکتی ہیں۔ مجھےیہ یقین ہے کہ ریسکیو سروس کے لیے کام کرنے کا میرا انتخاب ہماری نوجوان لڑکیوں کے مستقبل کو بدلنے کی جانب ایک قدم ہے جو صرف اس لیے سروس میں شامل ہونے سے ہچکچاتی ہیں کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ یہ نوکریاں صرف مردوں کے لیے ہیں۔"

تسکین نے اپنی تعیناتی کے بعد سےاب تک 250 سے زائد زندگی بچانے والی ہنگامی کالز سنی ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے پس منظر میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ سروسز کو مزید مضبوط بنانے کے لیے حکومت سندھ عالمی بینک کی مالی معاونت سے چلنے والے سندھ فلڈ ایمرجنسی بحالی پراجیکٹ کے تحت ایمرجنسی سروس کا جائزہ لے رہی ہے تاکہ اسے سندھ کے موجودہ 7 اضلاع سے 16 اضلاع تک توسیع دی جا سکے۔

آفات اور موسمیاتی تبدیلیاں خواتین اور لڑکیوں کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہیں۔ خواتین اور لڑکیوں کی مختلف ضروریات اور تجربات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اس لیے ریسکیو 1122 سروس خواتین کی بھرتی اور تربیت پر بھرپور توجہ دے رہی ہے۔

غلام اصغر کناسرو، سندھ ریزیلینس پراجیکٹ کے پراجیکٹ ڈائریکٹر کہتے ہیں کہ "آفات خواتین اور بچوں کو بہت متاثر کرتی ہیں۔ اس لیے خواتین کو ریسکیو عملے میں شامل کرنا بہت ضروری  ہے۔ ہم خواتین کومناسب مراعات اور مدد فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہیں تاکہ وہ ریسکیو سروس کے ہراول دستے کے طور پر کام کر سکیں۔"

پارس اور تسکین کی زندگی کا سفر پاکستان کی بےشمار خواتین کو سماجی رکاوٹوں کا مقابلے کرنے، اپنے آپ اور دوسروں کو بااختیار بنانے اور ملک کے لیے ایک جامع ریسکیو سروس بنانے کی ترغیب دے گا۔


Authors

Farah Yamin Khan

Consultant, Disaster Risk Management team

Yoko Okura

Disaster Risk Management Specialist

Join the Conversation

The content of this field is kept private and will not be shown publicly
Remaining characters: 1000